08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط9
Urdu
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر9
سنیں مجہے یہاں رہنے کو جگہ مل سکتی ہے۔
جنگل کے پاس جو آخری گھر تھے ادھر پہنچی ہوئی تھی رینا۔
ہاں جی آپ ہمارے گھر رہ سکتے ہو۔
مجہے دس دن رہنا ہے پھر میں چلی جاؤں گی۔
یہ تو مسلہ ہی کوئی نہیں جی۔
جم جم رہو جی۔
آپ اپنا ہی گھر سمجھو اسے۔
ایک مرد نے کہا جو شاید اس گھر کا مالک تھا۔
رینا اندر آ گئی۔
اس گھر میں میاں بیوی اور تین بچے تھے۔
چار کمرے تھے۔
ایک انہوں نے رینا کو دے دیا رہنے کو۔
کھانا کھا لو۔
چکن پکا ہوا تھا۔
رینا کو مزیدار نہیں لگ رہا تھا۔
کیا کروں میں۔
اس نے سب پر نظر ڈالی نہیں انہوں نے مجہے رہنے کو جگہ دی ہے یہاں غلط سوچنا ٹھیک نہیں۔
میں باہر سے شکار کروں گی۔
رات کا وقت ہوا جب سب سو گئے وہ آہستہ سے باہر نکل گئی۔
آنکھیں چمک رہی تھیں شکار کی تلاش میں۔
تین جوان لڑکے بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔
چھپ کر دیکھنے لگی۔
باتوں میں ایک نے اسکو دیکھ لیا۔
لڑکا جوان تھا اسنے بہکنا ہی تھا۔
لالچ میں اس طرف آ گیا۔
رینا کو پتہ تھا اسنے کیا کرنا ہے۔
اسکو ویران جگہ لے آیی۔ لڑکا اس کے حسن میں پاگل سا ہو گیا تھا۔
رینا نے اس کے سینہ پر ہاتھ پھیرا لڑکے نے اسکو گلے سے لگا لیا اور کس کرنے لگا۔
رینا نے جب دیکھا وہ اس میں ڈوب گیا ہے اور ہوش کھو بیٹھا ہے تب اپنے دانت اس کی شاہ رگ میں دھنسا دیے۔
پوری قوت سے اسکو پکڑے رکھا اور شاہ رگ کو چبانے لگی۔
پانچ منٹ بعد وہ بے حس و حرکت تھا۔
اسکو اپنی عادت پوری کرنی تھی لذت لینی تھی گوشت سے۔
پکانے کا ٹائم نہیں۔
کوئی آ نہ جائے ایک جنون طاری ہو گیا تھا اس پر گلے سے خون پینے لگی اور پھر وہیں سے ہی گوشت چبا کر کھانے لگی۔
یہ پہلی بار تھا اسکا کچا گوشت کھانا۔
پہلے عجیب لگا پھر مزہ آنے لگا۔
جب پیٹ بھر گیا تو اٹھ پڑی۔
پانی سے خود کو صاف کیا اور جا کر آہستہ سے اپنی جگہ پر سو گئی۔
صبح ہوئی تو شور تھا بندے جمع تھے۔
عثمان بھی وہاں تھا۔
اتنا بیدرد قتل کس نے کیا ہوگا۔
کوئی جانور آ گیا ہوگا۔ ایک بولا۔
عثمان کا دل لرزہ پھر وہم جانا۔ بھلا وہاں سے کون آ سکتا ہے ۔اسکو دفنا دیا گیا۔
رینا حسین تھی بہت زوبیہ کی طرح تب ہی تو وہ اس قبیلہ میں زندہ تھی۔
اس بات کا اسکو بہت اچھی طرح احساس تھا۔
دوسرا دن ہوا گاؤں والوں نے سب کو منع کیا ہوا تھا شام کے بعد کوئی نہ نکلے گھروں سے۔
سب بند تھے اس جنگلی جانور کے ڈر سے۔
مجہے بھوک لگی ہے پر مجہے محتاط رہنا ہوگا۔
آج ویسے ہی گزارا کر لوں گی۔
کل کچھ سوچوں گی۔ آج کا دن سہی گزر گیا گاؤں والے بھی مطمین ہو گئے۔ رینا نے آج پھر شکار کیا ۔
صبح ایک بار پھر سے گاؤں میں ڈر تھا۔
ہمیں گاؤں میں حفاظت کے لئے ٹیم بنانی ہوگی جو رات کو جاگ کر پہرہ دے گی وڈیرہ نے فیصلہ سنایا۔
رات کو کچھ نہ ہوا اگلے دن بھی سب کچھ سکون میں رہا۔
اس سے اگلی رات رینا کے بدلہ کا دن تھا۔
وہ عثمان کے گھر میں پھلانگ کر آیی۔ سب سو رہے تھے۔
رینا کے ہونٹوں پر ایک زہریلی مسکراہٹ تھی۔ وہ حور کے پاس گئی۔ وہ سو رہی تھی پاس دونوں بچے بھی تھے۔
کیا یاد کرو گے عثمان تمہاری بیٹی کو کچھ نہیں کہتی۔ پر بیٹا ہاہاہا اسکو لے کر جا رہی ہوں۔
اٹھایا اور باہر دوڑ پڑی۔ رکی نہیں۔ اب گاؤں کے پہرے سے کیسے نکلوں۔
بچے کو جھاڑی میں لٹایا اس کے منہ میں کپڑا دیا وہ چوسنے لگا اور سو گیا۔ آہستہ سے واپس جا کر عورت کا مقامی لباس پہنا اور بچے کو آ کر بانہوں میں لے لیا۔
اب رینا کو صبح کا انتظار تھا۔ جیسے ہی پہرے ہٹا وہ گاؤں سے نکل گئی اور پوری رفتار سے بھاگی۔
عثمان جاگا ۔
اپنے بچوں کو دیکھنا اسکی عادت تھی۔ حور اٹھو۔ ہادی کہاں ہے۔
سویا ہوا ہے۔ ابھی دیتی ہوں۔ حور بولی۔
نہیں ہے جھولے میں حور۔ عثمان چلایا۔
حور بھاگ کر جھولے کے پاس آیی۔ اسکی بیٹی تھی بیٹا تو نہیں تھا۔ ابو یا امی کے پاس ہوگا۔
ان کے پاس دیکھتے ہیں۔
ڈھے گئے جب وہاں بھی نہیں تھا۔
ہادی۔ عثمان چلایا اور باہر کو بھاگا۔
ہر جگہ بھاگ رہا تھا عثمان پر کوئی نہیں جانتا تھا۔ اب سب گاؤں والے جمع تھے۔ جہاں رینا رہی تھی
انہوں نے بتایا کے وہ عورت صبح سے غائب ہے۔
ہادی بھی نہیں تھا۔
مطلب وہی ہادی کو لے گئی۔ کون تھی وہ۔یاد آیا زوبیہ نے کہا تھا۔ میری ایک دوست ہے میں نے اسکو نہیں بتایا وہ مجہے بہنوں کی طرح چاہتی تھی۔ اوہ نو۔
زوبیہ رینا۔ نہیں۔ عثمان گھٹنوں کے بل گر کر رونے لگا۔ وہ میرے بچے کو لے گئی۔
میرا بچہ۔ میرا ہادی عثمان پاگل ہو رہا تھا۔ دورے لگ رہے تھے اسکو۔
حور رو رہی تھی۔ میرا بچہ زندہ ہوگا یا وہ کھا گئی ہوگی۔
ہادی میرا بچہ۔ دن گزرتے گئے مہینوں میں بدل گئے پھر مہینے سالوں میں۔ ان کے دلوں میں آج بھی درد تھا۔ آج بھی وہ سب بیٹھ کر روتے تھے۔
حور ذہنی مریض بن گئی تھی۔ آج چھے سال ہو گئے تھے۔ ناظم اور نور ساتھ پڑھتے تھے۔
دونوں میں پکی دوستی تھی۔ دونوں بچے تھے پھر بھی ایک دوسرے کی تکلیف دیکھ نہیں پاتے تھے۔
سدرہ نے ناظم کے لئے نور کو مانگ رکھا تھا۔ ایک لحاظ سے وہ ناظم کے نام تھی۔
ہادی کو رینا نے دودھ کی جگہ رونے پر خون کے قطرے پلاے تھے۔
وہ چھوٹا بچہ بھی اب پڑھ رہا تھا شہر میں ایک آعلیٰ اسکول میں۔
کالی آنکھیں دیو قامت بدن کچھ بال چہرے پر آتے مقناطیسی شخصیت اب وہ تھا ایک آدم خور۔
جسکو بنایا تھا رینا نے اپنے بدلہ میں۔ اور ہادی کی تھی وہ بیسٹ مام۔
رینا ایک پرائیویٹ کالج کی پرنسپل تھی۔
اسی سٹی میں رہتا تھا عثمان معہ اپنی فیملی۔
ناظم اور نور بھی اسی اسکول میں تھے ۔
تینوں آعلیٰ درجہ کے لائق تھے پر پہچان جدا تھی۔
کیسا یہ قسمت کا کھیل تھا۔
رینا ہر گزرتے دن کے ساتھ بنا رہی تھی ہادی کو اور زیادہ جنونی اور خون خوار ۔
دن میں عام دکھنے والا ہادی رات کا بہت بڑا درندہ بنتا جا رہا تھا۔
آگے ہونا تھا انکا ٹکراؤ۔